پوچھ گچھ کے نام پر بار بار تھانے بلانے یا تفتیش کے مقصد سے حراست میں لینے کی پولس کو ہراساں کرنے کے محاورے کی بحث کافی عرصے سے چل رہی ہے۔ 1898 کے 'کرمینل پروسیجر ایکٹ' کو پیر سے 'انڈین سول پروٹیکشن کوڈ' سے بدل دیا گیا۔اس کے بعد ایک نئی پریکٹس شروع ہوئی ہے۔ باشعور شہریوں کی طرف سے اکثر وکلاءکا سوال، کیا اس نئے عدالتی نظام سے ہراساں نہیں بڑھیں گے؟ کیونکہ نئے قانون کے تحت پولیس ملزم کو 60 سے 90 دنوں کے اندر کئی بار پولیس کی تحویل میں لے سکتی ہے۔ بعض صورتوں میں نظر بندی کی مدت 90 دن تک ہو سکتی ہے اگر جج ایسا سوچتا ہے۔کلکتہ ہائی کورٹ کے وکیل سدیپتا داس گپتا نے دعویٰ کیا، ”نئے عدالتی نظام میں پولیس کو بہت زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔ اگر چاہیں تو پولیس حراست میں پوچھ گچھ کے متعدد دور کے لیے درخواست دے سکتی ہے۔'' تفتیش کے نام پر طویل حراست سے ملزم کو نفسیاتی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ ضمانت کی طویل تلاش کے باعث ملزم کے اہل خانہ کو مقدمہ لڑتے ہوئے مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بار کونسل آف دہلی نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ صورتحال کسی بھی ملزم کے معاملے میں ذہنی اذیت کے مترادف ہو سکتی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے حراست میں موت بڑھ سکتی ہے۔
Source: mashrique
ڈاکٹرس ڈے کے موقع پربی سی رائے کی جگہ امبیڈکڑ کی تصویر
کلکتہ میں ایک بارپھر فائرنگ ہوئی!رہائشی ملازم کو لوٹنے کی گئی کوشش
مڈ ڈے مل میں کرپشن، احتجاج کرنے پر ہیڈ ماسٹر کی پٹائی
ا سکول کے باہر آئس کریم اچار بیچتے ہوئے سب ڈویڑنل انتظامیہ کا اچانک چھاپہ
بی ایس ایف نے نوجوان کو گولی ماردی
رابندر سروبر معاملے میں ہائی کورٹ کا سخت حکم