کلکتہ، 10 اپریل:آج کلکتہ کے عرفان لائبریرءمیں آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈ کی ایک اہم میٹینگ منعقد ہوءجسمیں بورڈ کے ترجمان اور وقف کے خلاف بورڈ کی جانب سے چلاءجانے والی تحریک کے کنوینر جناب سید قاسم رسول الیاس موجود تھے۔اس میٹینگ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے بورڈ کے اراکین اور ملی تنظیموں کے قائدین موجود تھے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تحریک کو ریاست میں کیسے چلایا جائیگا اس پر تفصیلی منصوبہ بندی ہوئ۔اتفاق رائے سے اس اس مہم کا ریاستی کنوینر حضرت قاری فضل الرحمن (امام عیدین ) کوبنایا گیا۔جبکہ مولانا صدیق اللہ چودھری (جمیعت علماء ہند) ،شاداب معصوم (جماعت اسلامی ہند)، مفتی عبد المتین (آل انڈیا سنت والجماعت)،مفتی مجاہد حسین حبیبی، مولانا اشرف علی قاسمی،اسحق ملک،عمر اویس کو اسکا جوائنٹ کنوینر بنایا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔یہ اعلان کیا گیا کہ آئیندہ 26 اپریل 2025 کو بریگیڈ میں ایک بڑا احتجاجی جلسہ کا انعقاد ہوگا۔ساتھ ہی ساتھ بورڈ نے جو گائیڈ لائنس دی ہیں اس پر عمل درآمد کی جائیگی۔ بورڈ کے ترجمان سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ حکمران پارٹی نے اپنی عددی طاقت کی بنیاد پر کروڑوں مسلمانوں، اقلیتوں اور ملک کے انصاف عوام کی مرضی کے خلاف وقف قانوں میں جو من مانی، امتیاز پر مبنی اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے دستوری و بنیادی حقوق پرتیشہ چلاکر جو ترمیمات منظور کی ہیں، ہم اسے کلیتاً مسترد کرتے ہیں۔ ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ ترامیم نہ صرف آئین ہند کے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ہیں بلکہ وقف کے انتظام و انصرام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے حکومت کے ارادے و ناپاک عزائم کو واضح کرتے ہیں، اس طرح ان ترمیمات کے ذریعہ ملک کی مسلم اقلیت کو ان کے اپنے مذہبی اوقاف کے آزادانہ انتظام و انصرام سے بھی روک دیا گیا ہے۔ ہندوستانی آئین کی دفعات 25 اور 26 ضمیر کی آزادی کے علاوہ مذہب پر عمل کرنے، تبلیغ کرنے کے حق اور مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے اداروں کے قیام اور انتظام کے حق کو یقینی بناتی ہیں۔ نیا نافذ کردہ قانون مسلمانوں کو ان بنیادی حقوق سے محروم کرتا ہے۔ سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ارکان کے انتخاب سے متعلق ترامیم اس کا واضح ثبوت ہیں۔ مزید برآں واقف کے لئے 5 سال تک باعمل مسلمان ہونے کی شرط، ہندوستانی قانونی فریم ورک اور آئین کی دفعات 14 اور 26 کے خلاف اور اسلامی شرعی اصولوں سے بھی متصادم ہے۔ یہ ترمیمات امتیازی و تفریق پر مبنی ہیں لہذا آئین کے دفعہ 14 سے بھی راست متصادم ہیں۔ دیگر مذہبی اکائیوں یعنی ہندو، سکھ، عیسائی، جین اور بودھ کے اوقاف کو جو حقوق و تحفظات حاصل ہیں، مذکورہ ترمیمات کے ذریعہ مسلمانوں کو ان سے محروم کردیا گیا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ، متعدد دینی و ملی جماعتوں اور مسلم دانشوروں نے پارلیمینٹ کی جانب سے قائم کردہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر ان ترمیمات کے خلاف زبانی و تحریری نمائندگی کی تھی، اس کے علاوہ ملک کے 5 کروڑ مسلمانوں نے بھی جے پی سی چیئرمیں کو ای میل بھیج کر انہیں کلیاً مسترد کیا تھا۔ لیکن پارلیمانی اور جمہوری تقاضون کے علی الرغم انہیں مسترد کردیا گیا۔ اب آخری چارہ کار کے طور پر جہان ایک طرف ہم نے قانونی راستہ اختیار کرکے اسے عدالت عظمی میں چیلنج کیا ہے، وہیں اب ہم عوام کی عدالت میں بھی جارہے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس سلسلے میں جو تفصیلی ہدایات دی ہیں اور 3 ماہ کی پرامن جدوجہد کا جو تفصیلی خاکہ پیش کیا ہے، ان شائ اللہ اسے پوری طاقت اور ایمانداری کے ساتھ بروئے کار لایا جائے گا۔ آج ہماری ریاستی کمیٹی نے غور و فکر کرکے ریاست گیر سطح کا ایک پروگرام ترتیب دیا ہے۔ ہمارے ساتھ ریاست کی تمام اقلیتی و مذہبی اکائیاں، تمام مذہبیو سیاسی شخصیات اور سول سوسائٹی کے اہم افراد بھی ہوں گے۔ یہ پورا پروگرام پر امن، دستور و قانون کے دائرے رہے گا۔
Source: social Media
دلیپ گھوش کی بیوی بننے والی رنکو نے اپنے بیٹے کے بارے میںکیا کہا؟
سنگھ اور بی جے پی رہنماوں نے دلیپ کو 'بغیر دعوت کے' مبارکباد دی
کولکاتا ہوڑہ سمیت دس اضلاع میں اورنج الرٹ جاری
سیاسی حلقوںمیں دلیپ گھوش کی شادی کی دھوم
میونسپلٹی نے 11 کمپنیوں کو منسلک جائیداد کی قیمت کا اندازہ لگانے کے لیے فہرست میں شامل کیا
پولیس ہراسانی کا شکار ہے، نگرانی بڑھائی جائے گی۔