افغانستان میں طالبان کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت قتل کے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر خوست کے صوبائی سٹیڈیم میں ایک شخص کو سر عام گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ افغان طالبان عدالت نے ٹوئٹر پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ’آج (منگل کو) صوبہ خوست کے مرکز میں واقع سپورٹس سٹیڈیم میں ایک قاتل پر اللہ کے حکم (قصاص) پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔‘ بی بی سی پشتو کے مطابق اس کیس کی تفتیش طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر ہوئی۔ سپریم کورٹ کے کچھ ججز، مقامی حکام اور سیکڑوں لوگ سزا پر عملدرآمد دیکھنے آئے تھے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق ’اس شخص کو گولی مارنے سے قبل طالبان کے اہلکار اور ’مجرم‘ کے خاندان کے افراد مقتول کے خاندان کے پاس گئے اور معافی کی درخواست کی مگر انھوں نے صاف انکار کر دیا۔‘ ان کے مطابق ’سزائے موت پانے والے شخص کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی اور پھر مقتول کے خاندان کے ایک فرد نے ان پر تین بار گولی چلائی۔ سٹیڈیم اتنا بھرا ہوا تھا کہ کوئی جگہ نہیں بچی، لوگ درختوں اور مارکیٹس میں بھی بیٹھے ہوئے تھے اور یہاں ہجوم پر ایک دیوار بھی گری۔ صحافیوں کے مطابق علاقے میں سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے اور ہر طرف طالبان کے سرکاری فوجی ہی نظر آ رہے تھے۔ خوست کے گورنر کے ترجمان مستغفر گرباز نے اس سے قبل ایکس پر اعلان کیا تھا کہ اس حکم پر صبح 10 بجے کے قریب عمل درآمد کیا جائے گا۔ انھوں نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ پھانسی کی جگہ پر ہتھیار یا موبائل فون ساتھ نہ لائیں، اس درخواست کا مقصد واقعے کی تصاویر کی ریکارڈنگ اور ان کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کو روکنا تھا۔ طالبان حکومت نے بھی اپنی پہلی مدت (1996-2001) کے دوران بہت سی سرعام پھانسیاں دی تھیں، لیکن اس کی پہلی مدت کے مقابلے، 2021 میں اس کی دوسری مدت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پھانسیوں میں نسبتاً کمی آئی ہے۔ گذشتہ چار سالوں میں، مختلف صوبوں میں پھانسیوں کے سلسلے میں 11 افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا جا چکا ہے۔ صرف گذشتہ اپریل میں چار افراد کو ایک ہی دن میں پھانسی دی گئی ہے۔ پھانسی کے احکامات پر طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے دستخط ہیں۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خوست میں سرعام پھانسی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے، طالبان نے آج صبح صوبہ خوست میں ایک شخص کو سرعام پھانسی دی، ایک ایسا واقعہ جس میں مبینہ طور پر تماشائیوں میں بچے بھی شامل تھے۔‘ رچرڈ بینیٹ نے مزید کہا کہ ’میں ان پھانسیوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ یہ ایک ظالمانہ اور غیر معمولی سزا ہے جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ میں طالبان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ افغانستان میں پھانسیوں پر عمل درآمد فوری طور پر بند کریں اور اس سزا پر باقاعدہ پابندی کا اعلان کریں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں ان پھانسیوں کی مذمت کرتا ہوں۔ یہ سزائیں غیر انسانی، ظالمانہ اور بین الاقوامی قانون کے منافی ہیں۔ یہ سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہونا چاہیے تھا اور انھیں فوری طور پر روک دیا جانا چاہیے تھا۔‘ رچرڈ بینیٹ نے اپنے فیس بک پیج پر یہ بھی لکھا کہ اس سلسلے کا تسلسل ’گہری تشویش‘ ہے، خاص طور پر جب یہ فیصلے عدالتی نظام کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں، جو ان کے مطابق، ’نہ تو آزاد ہے اور نہ ہی منصفانہ ٹرائل کی ضمانتیں ہیں۔‘
Source: social media
آج شب چاند عین خانہ کعبہ کے اوپر ہوگا
امریکی صدر ٹرمپ کا چینی صدر کو طنز بھرا پیغام
افغانستان میں زلزلے سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے: طالبان حکومت
غزہ امن معاہدے پر امریکا، قطر، ترکیہ اور مصر نے دستخط کر دیے
افغانستان میں زلزلے سے 800 سے زیادہ افراد ہلاک، ہزاروں زخمی
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
افغانستان میں زلزلے سے 800 سے زیادہ افراد ہلاک، ہزاروں زخمی
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
سلامتی کونسل میں صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور
گوگل کا اسرائیلی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کیلیے کروڑوں ڈالر کا معاہدہ